حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمیؒ : حیات وخدمات کے چندگوشے!

Jul 22, 2025 - 18:42
Jul 23, 2025 - 09:45
 0  10
حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمیؒ : حیات وخدمات کے چندگوشے!

حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمیؒ : حیات وخدمات کے چندگوشے!

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186

                         وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
                           وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔


            یہ دنیا فانی ہے،یہاں کسی چیز کو جاودانی عطا نہیں کی گئی ہے،زمانے کا قاصد ہر روز نئے نئے پیغامات لے کر آتا ہے،کبھی وہ قرطاس دل پر رنج و الم کے واقعات چھوڑ جاتا ہے تو کبھی سرور و انبساط کی داستانیں،ان واقعات میں سے بعض دلوں کو معطر کردیتے ہیں اور بعض  واقعات وہ ہوتے ہیں جو نوحہ خوانی پر مجبور کردیتے ہیں۔28 جون بروز ہفتہ 2025ء بمطابق 2 محرم الحرام 1447ھ شام کے 4:30یا 4:45 بج رہے تھے،عصر سے پہلے کا وقت تھا،ایک پٹرول پمپ پر گاڑی میں پٹرول ڈالنے لائن میں کھڑا تھا کہ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی،جیب سے فون نکا لا تو دیکھا کہ اہلیہ محترمہ کا فون ہے،فون ریسیو کیا،علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا خیریت تو ہے؟کہنے لگیں الحمدللہ! پھر آگے بجھے دل سے کچھ اسطرح گویا ہوئیں اور یہ افسوسناک خبر سنانے لگیں کہ اجی! کچھ معلوم ہوا آپ کو؟میں نے نفی میں جواب دیا تو کہنے لگیں کہ ابھی حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب انتقال کر گئے،فون پر یہ خبر آرہی ہے،اپنا فون دیکھئے! یہ سنتے ہی زبان سے بےساختہ اناللہ جاری ہوگیا،آگے کچھ بولنے کی سکت باقی نہ رہی،اسلئے میں نے فون کٹ کردیا،اتفاقا اس دن کئی گھنٹے سے فون دیکھا نہیں تھا،فون کٹ کرنے کے بعدفوری طور پر نیٹ آن کیا  اور واٹس ایپ پرنظر ڈالی تو دیکھا کہ واقعی ایک مقامی گروپ میں یہ خبر زیر گشت ہے،مجھے پھر بھی یقین نہیں ہوا،ادھر ادھر فون گھمایا اور خبر کی تحقیق کےلئے بعض لوگوں کو کال کیا تاکہ اس خبر کی تصدیق ہوسکے،بہرحال خبر کی تصدیق ہو گئی اورکچھ لمحے کے لئے میں دم بخود ہوکر رہ گیا،ایسا محسوس ہوا جیسے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی ہو،اگلے کچھ منٹ کے بعد جب طبیعت سنبھلی تو حضرت مولانا انصار صاحب (شیخ الحدیث،دارالعلوم حیدرآباد،پیدائش 1939ء) کو اس خبر کی اطلاع دی،انکو بھی اسکا علم نہیں تھا،حضرت بھی افسوس کا اظہارکرنے لگے اور تعزیت مسنونہ پیش کیا،طبیعت مضمحل اور اداس ہوچکی تھی،لوگوں کے فون بھی آنا شروع ہوگئے،بھیڑ کی وجہ سے گاڑی میں پٹرول بھی نہیں ڈال سکا اور بغیر پٹرول کے ہی گھر واپس ہوگیا،راستے میں ٹرافک کی وجہ سے ایک مسجد میں عصر کی نماز پڑھی اور جلدی جلدی گھر پہونچا،شہرحیدرآباد میں عام طور پر اسوقت ٹرافک کا بہاؤ زیادہ ہوجاتا ہے،کیونکہ اسکول وکالج کے علاوہ سرکاری وغیر سرکاری ملازمین کے چھٹنے کا یہی وقت ہوتا ہے،ٹرافک کی کثرت سے مجھے الجھن سی ہونے لگتی ہے،اسلئے میں ٹرافک کے اوقات میں کہیں جانے سے حتی الامکاں گریز کرتاہوں،ہفتے کا دن تھا اور ہفتے کے دن معمول سے زیادہ ٹرافک ہوجاتی ہے کیونکہ اگلے دن اتوار کو عام تعطیل ہوتی ہے،اسی لئے رش بڑھ جاتاہے، کافی وقت ٹرافک کی نظر ہوگیا،پھر بھی کسی طرح  گھر پہونچا تو گھرکا ماحول بھی سوگوار تھا،بچے کہنے لگے ابو! اسی مولانا صاحب سے گزشتہ مہینے گاؤں میں آپ نے ہم لوگوں کی ملاقات کرائی تھی اور ماما کی شادی میں حضرت نے ہی نکاح پڑھایا تھا،انہی کا انتقال ہوگیا؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اور کچھ دیر آرام کےلئے لیٹ گیا لیکن نیند نہیں آنی تھی سو نہیں آئی،اسی طرح پہلو بدلتا رہا اور فون دیکھتا رہا،اکابر علماء کے تعزیتی پیغامات بھی آتے رہے،پہلے ظہر کے بعد جنازہ وتدفین کی خبر آئی، کچھ دیر بعد تدفین کے اوقات میں تبدیلی کی خبر آتی رہی،اسطرح رات کا کافی حصہ گذر گیا، گاؤں اور میرے بچپن سے متعلق کھٹی،میٹھی،بہت سی یادیں ذہن کے پردے پر گشت کرنے لگیں،اگلے دن جنازہ و تدفین کی مختلف ویڈیوز دیکھی تو دل بے ساختہ کہہ اٹھا کہ 
            زمین لوگوں سے خالی ہوتی جارہی ہے!
حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب مرحوم سے میرا تعلق اور میری قربت بہت زیادہ نہیں رہی،حال آنکہ مولانا جس گاؤں کے باشندے تھے اسی گاؤں سے میرا بھی تعلق ہے اور تھوڑے فاصلے کی رشتے داری بھی،وہ بھائی کے داماد تھے اور میں بہن کا نواسہ،اس اعتبار سے وہ میرے خالو ہوتے تھے،مولوی مشرف حسین صاحب مرحوم (وفات جنوری 2004) جو انکے ابتدائی استاذ تھے اور بعد میں خسر بھی ہوگئے،میری نانی مرحومہ(وفات اکٹوبر2024) کے بھائی تھے،میرے ابتدائی استاذ بھی وہی ہیں،ناظرہ قرآن اور اردو کی ابتدائی کتابیں ہم نے انھیں سے پڑھی ہیں،اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے،ان سب کے باوجود مولانا مطیع الرحمن صاحب سے میری قربت نہیں رہی،مجھے ان سے پڑھنے کا موقع بھی نہیں ملا،دوران تعلیم اکثر میں باہر ہی رہا،کئی کئی برسوں میں ہفتہ دس دن کےلئے گاؤں آتا پھر واپسی ہوجاتی تھی،اسلئے بھی ان سے استفادہ نہیں کرسکا،یاد پڑتا ہے  کہ جب تک میں گاؤں میں زیر تعلیم رہا تب تک تو ان سے تقریبا روز آنہ ملاقات ہوتی اور چلتے پھرتے علیک سلیک بھی ہوجاتی تھی،مولانا نماز کےلئے جس راستے سے مسجد آیا جایا کرتے تھے،اسی راستے پر میرا گھر ہے اور وہ راستہ میرے گھر کے دروازے سے گذرتاہے یہ ایک عام راستہ ہے،اسی راستے سے انکی آمدو رفت ہوتی تھی،اب تو گلی گلی میں پکی روڈ بن گئی ہے،پہلے کچی روڈ تھی اور یہ راستہ بہت گندا رہتا تھا،بارش کے موسم میں چلنے پھرنے میں بڑی تکلیف ہوتی تھی،نالہ وغیرہ کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے میرے گھرکے پاس ہی گندگی اکثر پھیل جاتی تھی،جسکی وجہ سے آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔انکے ایک ہاتھ میں لاٹھی،اور دوسرے میں تسبیح ہوتی،بھاری بھرکم جسم پر ہمیشہ کاٹن کا ڈھیلا ڈھالا لمبا سا سفید جبہ،سر پر پانچ پلی ہردوئی والی ٹوپی،لانبا قد،گول چہرہ،گورا رنگ،چہرے پر موٹا مگر زیادہ پاور کا چشمہ،ہلکی پھلکی سفید داڑھی،بارعب و وجیہ چہرہ،پاؤں میں ایک خاص قسم کا سفید جوتا،خنک دار آواز،تیز قدموں کے ساتھ راستہ چلتے،راہ میں کسی غلط چیز پر نظر پڑ جاتی تو اسکی اصلاح کرتے ہوئے گذرتے،بڑے،چھوٹے،بچے،بوڑھے غرض راستے میں جو کوئی ملتا سب کو بلند آواز سے سلام کرتے،مولانا کو آتا دیکھکر راستے میں کھڑے لوگ کنارے ہوجاتے اور عورتیں گھروں کے اندر چلی جاتیں،کچھ شریر قسم کے بچے کھیلتے ہوئے راستے میں مل جاتے تواس پر لاٹھی پھیرتے اور ہلکی تادیب کرتے گذرجاتے،عموما انکے  پیچھے دوچار لوگ ضرور ہوتے جو نماز پڑھکر انکے ساتھ مسجد سے آتے یا نماز کےلئے مسجدانکے ساتھ جاتے،راستے میں کوئی مل گیا تو ان سے کہتے ہوئے جاتے کہ بھائی کہاں جارہے ہو مسجد چلو نماز کا وقت ہوگیاہے،فجرکی نماز کےلئے اکثر اذان سے قبل سب سے پہلے مسجد پہونچتے اور بالکل امام کے پیچھے مصلے پرسنت و نوافل ادا کرتے یا قرآن پڑھتے،یہ جگہ برسوں سے انکےلئے خاص تھی،کوئی دوسرا شخص وہاں نہیں بیٹھ سکتا تھا،انکے آنے میں کبھی تاخیر ہوجائے تب بھی وہ جگہ خالی رہتی تھی،امام صاحب  کی غیر موجودگی میں خود ہی آگے بڑھ کرنماز پڑھاتے،فجر میں پرسوز انداز میں طویل قرأت کرتے اور پھر نماز کے بعد تفیسرمعارف القرآن سنانے  کا اہتمام کرتے،وہ ہمیشہ مسجد میں پہلے داخل ہوتے اور بعد میں نکلتے۔جمعرات جمعہ کو جب ہم لوگوں کی مدرسے سے چھٹی ہوتی اور گھر آتے تو والدہ کا حکم تھا کہ جوپڑھکر آتے ہو اسے گھر میں یاد کیا کرو،اسی لئے عموما مغرب کے بعد ہم لوگ گھر میں بلند آواز سے قرآن پڑھتے اور یاد کرتے،یہ آواز باہر تک جاتی،راستے سے گذرنے والا ہرشخص اسکو سنتا،مولانا بھی راستے سے سنتے ہوئے گذرتے،کبھی والدہ کو آواز ضرور لگاتے اورکہیں غلطی ہوتی تو دروازے پر کھڑے ہوکر باہر بلاتے اورغلطی کی نشاندہی کرتے یا کچھ منٹ ٹھہر کر قرآن سن لیتے،کئی بار میری والدہ سے مولانا نے کہا کہ تم اپنے بیٹے کو شاہ کنڈ بھیج دو،وہاں ہم پڑھائیں گے لیکن والدہ بھیجنے کےلئے تیار نہیں ہوئی،ہرنتھ کے ایک اور مولانا حیدرآباد میں ایک ادارہ چلاتے ہیں وہ بھی کافی دنوں تک میری والدہ سے یہ کہتے رہے کہ انکو حیدرآباد بھیج دو وہاں اچھی پڑھائی ہوتی ہے،ہم اپنے پاس پڑھاکر بچوں کو باہر ملک بھیجتے ہیں وغیرہ وغیرہ جب تک والدہ باحیات رہیں،میں گاؤں میں ہی تعلیم حاصل کرتا رہا کہیں باہر نہیں گیا،دراصل میری والدہ اپنی نظر سے دور مجھے بھیجنا نہیں چاہتی تھیں وہ چاہتی تھیں کہ اپنی نگرانی میں اپنی اولاد کی تربیت کرے،وہ پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن اپنی اولاد کی تربیت میں کمی نہیں تھی،اذان ہوتے ہی  نمازکےلئے ہم لوگوں کو مسجد بھیجتی  اور بار بار یاد دہانی کراتی کہ اذان ہوگئی ہے نماز پڑھنے مسجدجاؤ،مغرب کے بعد گھر کا دروازہ بند ہوجاتا اور باہر کھیلنے کی اجازت نہیں تھی،آس پاس کی عورتیں ہم لوگوں دیکھ کر عش عش کرتی اور والدہ کی تعریف بھی،گھرمیں فجر سمیت پانچوں وقت ہم لوگوں سے نماز،روزے کی پابندی کراتی اور خود بھی اسکا اہتمام کرتی تھیں،میں چونکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا شاید اسلئے بھی وہ مجھے باہر نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔بھائی بہن میں سے کسی کی معمولی طبیعت خراب ہوجاتی تو والدہ اسے لیکر دروازے پر کھڑی ہوجاتی اور انتظار کرتیں کہ مولانا اور دیگرلوگ مسجد سے لوٹیں گے تو دم کردیں گے،مولانا مطیع الرحمن صاحب مسجد سے واپس ہوتے تو جھاڑ پھونک کرتے ہوئے اور خیر خیریت لیتے ہوئے گذرجاتے۔محلے میں کسی سے کبھی والدہ نے قرض نہیں لیا،دیگر ضرورت مند عورتوں کی وہ ضرورتیں پوری کرتیں ان کو قرض وغیرہ دیتی تھیں،محلے کی تقریبا ساری عورتیں انکی دوست تھیں،جب بھی کسی سے ملتیں،ہنستے مسکراتے ہوئے ملتیں،ادب تہذیب اور اخلاق کو ہمیشہ ملحوظ رکھتیں،وہ ایک سلیقہ مند خاتون تھیں،محلے کی کئی خواتین آج بھی ہم لوگوں سے والدہ کا ذکر خیر کرتی ہیں اور اپنا مشاہدہ بیان کرتی ہیں۔میری والدہ ہمارے درمیان زیادہ دنوں نہیں رہیں انکی عمر بہت مختصر ہوئی،عین جوانی اور صرف 34/35سال کی عمر میں وہ ہم لوگوں کو داغ مفارقت دے گئیں،ستمبر 2000ء میں انتقال ہوا اور ہرنتھ میں ہی مدفون ہیں۔انتقال کے بعد محلے کی کئی عورتوں نے ان سے لئے گئے قرض وغیرہ خود سے واپس کئے۔رب کریم والدہ سمیت تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے۔آمین
آج یہ تحریر لکھتے ہوئے بےاختیار والدہ کی یاد آگئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے،والدہ کے انتقال کے بعد ہم لوگوں کی تعلیم اور پرورش ایک بڑا چیلنج تھا،اللہ تعالی نے دستگیری فرمائی اور اسے بھی آسان کردیا،سوائے ایک چھوٹے بھائی کے سب کی شادیاں ہوگئیں،صرف ایک بھائی باقی ہے،اسکے رشتے کی بھی تلاش جاری ہے۔والدہ سے متعلق  ایک مستقل تحریر پھر کبھی ان شاءاللہ۔۔
دوران طالب علمی میرا چہارم یا پنجم کا سال رہا ہوگا کہ میں کئی سال کے بعد گاؤں آیا تو میرے نانا مرحوم (نذیر حسن صاحب،وفات 2017ء) سے گاؤں کے کچھ لوگوں نے کہا کہ"تمہارا نواسہ کہاں پڑھتاہے؟ اور کیا پڑھتاہے؟ اس جمعے میں اس سے کہئے کہ مسجد میں تقریر کرے گا" گھر آکر میرے نانا مجھ سے کہنے لگے کہ بیٹا فلاں تمہارے متعلق ایسا ایسا بول رہا تھا،میں نے نانا کو یقین دہانی کرادی کہ جمعہ میں ضرور میں تقریر کروں گا ان شاءاللہ۔پھراسی دن جب میں گھر سے باہر نکلا تو بعض لوگوں نے ہم سے بھی یہی کہا کہ مولانا آپ کہاں پڑھتے ہیں ؟ اور کیا پڑھ لکھ رہے ہیں؟ ذرا ہم لوگوں کو بھی جمعہ میں کچھ سمجھائیے،آپ کے نانا تو آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں،میں نے سن لیا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے جمعہ کی تیاری کرنے لگا،دوتین روز وقت تھا،ذہن بنالیا کہ تقریر کرنا ہے،اسکی تیاری کرنے لگا،جمعہ کا دن آیا اور  منبرکے پاس جاکر میں تقریر کے ارادے سے کھڑا ہوگیا،ہاتھ پیر کپکپا رہے تھے،پھر بھی اپنے آپ کو کنٹرول کیا اور پورے یقین واعتماد کے ساتھ اپنی تقریر شروع کی،عوام کے درمیان مجھے کھڑا ہونے کا یہ پہلا موقع تھا،قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل،اصلا ح معاشرہ پر گفتگو شروع ہوئی اور ہوتی رہی،جوش و ولولے سے بھر پور یہ تقریر کچھ مخصوص لوگوں کو بری لگ گئی،اس میں حضرت مولانا مرحوم بھی شامل تھے،بری اسلئے نہیں لگی کہ یہ تقریر غلط تھی بلکہ اسلئے کہ ایک تو میرا خون گرم تھا،انداز تھوڑا تلخ اور خطیبانہ تھا،اسی جذبے کے ساتھ گاؤں اور سماج کے غلط رویوں کی نشاندہی کی گئی،اس تقریر کو گاؤں کے اکثر لوگوں نے پسند کیا لیکن بعض لوگ پتا نہیں یہ کیوں سمجھنے لگے کہ یہ بات میرے بارے میں کہی جارہی ہے اور میری طرف ہی اسکا اشارہ ہے،حالانکہ دوران تقریر  کسی کو نامزد کیا گیا اور نہ ہی کسی کا نام لیا گیا تھا۔بہر حال نماز مکمل ہونے اور سلام پھیرنے کے بعد فورا حضرت مولانا مرحوم اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا" ماشاءاللہ،ماشاءاللہ تقریر تو بہت اچھی ہے مگر جذباتی ہے،جذبات میں اسقدر بہہ جانا کہ اپنے اساتذہ کا خیال نہ رہے یہ بالکل درست نہیں ہے،اساتذہ کا ادب و احترام ہوناچاہئے  ۔۔۔۔۔۔۔۔" وغیرہ وغیرہ
مولانا نے  کچھ باتیں اوربھی فرمائیں تھیں،حضرت مولانا کے ردعمل کا نتیجہ یہ ہواکہ لوگ انہی کے مخالف ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ تقریر میں تو ایسی کوئی غلط بات نہیں کی گئی ہے جس پر نکیر کی جائے،مولانا نے جن دو باتوں کی طرف اشارہ کیا وہ دونوں باتیں سرے سے غلط تھی جسکا کوئی وجود نہیں تھا،اولا تو اسلئے کہ وہاں حضرت مولانا عبدالطیف قاسمی صاحب(1942 تا 2024) مرحوم کے علاوہ میرے کوئی استاذ موجود نہیں تھے،پھر استاذ کے خلاف کوئی ایسی بات بھی نہیں کہی گئی تھی جو قابل نکیر ہو،مکتوبات شیخ الاسلام میں حضرت مدنی اور ملفوظات فقیہ الامت وغیرہ میں کئی بزرگوں نے لکھا ہے کہ استاذ کا ادب و احترام اسی وقت تک باقی رہے گا جب وہ شریعت کے دائرے میں رہ کر کوئی کام کرے،اگر وہ شریعت کے دائرے سے نکل گیا تو پھر اسکا ادب و احترام بھی باقی نہ رہا اور ختم ہوگیا،دوسری بات حضرت مولانا کا کسی عالم یا خواص کا سر عام اسطرح اصلاح کرنا یہ بھی غلط تھا،غلطیوں کی اصلاح کا طریقہ علماء نے یہ لکھا ہے کہ جب کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو تنہائی میں اسکی اصلاح کی جائے نہ کہ مجمع عام میں،چہ جائیکہ کسی عالم کی اصلاح اسطرح کی جائے۔یہ بالکل مناسب نہیں ہے۔بہرحال مولانا  کا یہ موقف میرے اعتبار سے درست نہیں تھا،ہم نے انہی دنوں مولانا مرحوم کو اس سے واقف کرایا اور ان سے رجوع کیا لیکن مولانا اپنی بات اور اپنے موقف پر قائم رہے،میری یہ تقریر کافی دنوں تک لوگوں کو یاد رہی بلکہ میری شناخت کا بھی ذریعہ بنی اور علاقے میں کافی شہرت تقریر کی ہوگئی،بہت سے لوگوں کو شاید اب بھی یاد ہو،اس تقریر کے بعد مجھے آس پاس کے کئی گاؤں سے آفر کیا گیا کہ میں وہاں جاکر تقریر کروں لیکن میں نے اسے قبول نہیں کیا اور کہیں نہیں گیا،بلکہ اسکے بعد سے جب کبھی جانا ہوتا تو ہرنتھ میں بھی تقریر وغیرہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔
اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت مولانا مرحوم سے میری زیادہ قربت نہیں رہی،اس میں خاندانی اختلاف کا بھی شاید بڑا دخل رہا ہو،ہرنتھ میں مختلف خاندانوں کا اختلاف برسوں سے قائم ہے،جسکا اثر آج بھی واضح طور پر نظرآتاہے،میرا تعلق جس خاندان سے ہے اس سے مولانا مرحوم کے خاندان کا کسی زمانے میں اختلاف رہاہے،میرے پردادا ملک لیاقت اور اشرف مرڑ کی خاندانی لڑائی بہت مشہورہے،اب بہت حدتک اس اختلاف کی شدت میں کمی آئی ہے،حالیہ دنوں میں شادی وغیرہ بھی ایک دوسرے خاندان میں ہورہی ہیں،خداکرے یہ خاندانی اختلاف اور لڑائی جھگڑے ہمیشہ کےلئے ہرنتھ سے ختم ہوجائے اور لوگ اتحاد واتقاق کے ساتھ رہیں۔
2016/17 کی بات ہے کئی سال کے بعد میں ہرنتھ کسی شادی میں شرکت کےلئے گیا ہوا تھا،ظہر کی نماز کےلئے مسجد گیا،نماز کے بعد مسجد سے نکلنے ہی والا تھاکہ پیچھے سے سلام کی آواز آئی،میرے پیچھے مڑنے سے پہلے تیزی کے ساتھ حضرت مولانا مرحوم میرے سامنے وارد ہوئے، مصافحہ کےلئے ہاتھ بڑھایا خیر خیریت کے بعد فرمانے لگے" ہم جیسے لوگوں سے کیا ناراضگی ہے بھائی؟کچھ غلطی ہوئی ہو تو معاف کیجئے اور کم سے کم سلام، کلام تو جاری رکھئے"مولانا کا یہ سلوک میرے لئے حیران کن اورغیرمتوقع تھا جو میرے تصور کے بھی برعکس تھا،میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ اتنے بڑے لوگ تم سے آکر سلام،مصافحہ کریں اور تم مغرور بنے انکے تعلق سے دل میں کدورت رکھو اور دوری اختیار کرو یہ کیسا رویہ ہے؟گویا دل سے یہ آوازآئی کہ
               آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غورکرو!
بہرحال یہاں سے ہم نے ساری چیزیں بھلادیں اور مولانا سے تعلق استوار ہونے لگے،انکے گھر آنا جانا بھی ہونے لگا،گفتگو وملاقات بھی ہونے لگی اور فون  کے ذریعے رابطہ بھی ہونے لگا،دو چار سال پہلے جب میں ہرنتھ گیا ہوا تھا،ایک دن ہم سے کہنے لگے ماشاءاللہ آپ تو اچھے قاری ہیں،قرآن اچھا پڑھتے ہیں،آواز بھی اچھی ہے،اسلئے امام صاحب کی غیرموجودگی میں جہری نماز آپ پڑھایا کیجئے،امام صاحب چھٹی پر تھے،پھر کئی نمازیں مجھے پڑھانی پڑی، کئی بار ایسا ہوا کہ امام صاحب کی غیر موجودگی میں مجھے انھوں نے نماز پڑھانے کےلئے آگے بڑھایا،پہلے جب ہرنتھ کی مسجد میں کوئی عالم امام نہیں ہوتا تھا،اگر وہ گاؤں میں ہوتے تو ہر جمعہ انکا بیان ہوتا،ادھر کئی برسوں سے امام صاحب عالم فاضل ہیں،اسلئے یہ طے کردیا گیا کہ ایک جمعہ امام صاحب اور دوسرے جمعہ مولانا  کا بیان ہوگا، گزشتہ سال اکٹوبر میں جب میں ہفتہ دس دن کےلئے گاؤں گیا تو کچھ لوگ ہم سے کہنے لگے کہ آنے والے جمعہ کو مسجد میں آپ کو تقریر کرنی ہے،لیکن اس دن مولانا کی باری تھی،مولانا تک میرے بارے میں خبر پہونچائی گئی کہ جمعہ میں انکو بیان کرنے کا موقع دیا جائے،انھوں نے اسکو منظور کرلیا اور خبر بھجوادی کہ مولوی سرفراز سے کہہ دو کہ وہ جمعہ میں بیان کریں میں نہیں رہوں گا،کہیں دوسری جگہ میرا پروگرام ہے،پھر جمعہ سے قبل وہ خلیفہ باغ،بھاگلپور روانہ ہوگئے اور وہیں انکا خطاب ہوا،مغرب کی نماز کےلئے مسجد گئے تو وہیں ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ مولانا شاہ مارکٹ بھاگلپور گئے تھے،واپسی میں انکی طبیعت ناساز ہوگئی،گھر پر ہی ہیں،میں،مفتی فصیح اور مفتی اشفاق مرحوم نماز بعد عیادت کےلئے انکے گھرگئے تو لیٹے ہوئے تھے،ڈاکٹر بھی موجود تھے،ہم لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے کہ صبح شاہ مارکیٹ گیا تھا،وہیں جمعہ سے پہلے میرا بیان بھی ہوا،جمعہ کے بعد کھانا بھی کھایا،تب تک طبیعت ٹھیک تھی،آنے کے وقت راستے میں اچانک سینے میں درد شروع ہوا اور بے چینی سی ہونے لگی اسی لئے نماز کےلئے مسجدنہیں جاسکا،گھر میں ہی پڑھی،ابھی طبیعت کچھ ٹھیک ہے،پھر فرمانے لگے" مفتی فصیح نے بتایا کہ مولوی سرفراز کا آج یہاں ہرنتھ میں اچھا بیان ہوا،میرے پاس کل کچھ لوگ آئے تھے کہ مولوی سرفراز کو جمعہ میں بیان کرنے دیاجائے،میں نے ان سے کہا کہ جب مفتی اشفاق یہاں بیان کرسکتے ہیں،مفتی طاہر بیان کرسکتے ہیں تو پھر مولوی سرفراز کیوں نہیں کرسکتے؟ وہ بھی کرسکتے ہیں،میں نے مولوی سرفراز سے بھی کہلوا دیا کہ کل یہاں یہ بیان کریں میں نہیں رہوں گا"
کچھ سال پہلے ایک دن ہم سے کہنے لگے کہ انقلاب اخبار میں ہمیشہ سرفراز احمد قاسمی کے نام سے تحریر دیکھتا تھا،ایک دن مفتی اشفاق کا دیوبند سے فون آیا تو انھوں نے بتایاکہ آپ ہی لکھتے ہیں،مجھے بہت خوشی ہوئی،اچھا لکھتے ہیں،لکھتے رہئے"
لاک ڈاؤن میں جب مفتی ہلال صاحب مرحوم سابق مہتمم مدرسہ حسینیہ ہرنتھ (وفات 2021) کا انتقال ہوگیا تو کئی دن کے بعد میری بات مولانا سے فون پر ہوئی،ہم نے کہا اب مدرسے کا کیا ہوگا؟ تو کہنے لگے بھائی ہرنتھ مدرسے کا تذکرہ میں نہیں سننا چاہتا،اس مدرسے کو برباد کردیاگیا،حالانکہ وہ میرا مادرعلمی ہے،پھر میری ذہن سازی کے بعد وہ مدرسے کے بارے میں فکرمند ہوئے اور جب ہم لوگ متحرک ہوئے تو اس دوران ان سے بار بار مشاورت ہوتی رہی،2022 ء میں جب ہم نے"جامعہ حسینیہ ہرنتھ بربادی کے دہانے پر" تحریر لکھی تو اسکو مفتی اشفاق صاحب مرحوم کے ذریعے انھوں نےپڑھواکر سنا اور مجھے فون کرکے کہنے لگے کہ آج مفتی اشفاق کے ذریعہ مدرسہ حسینیہ ہرنتھ سے متعلق آپ کی ایک لمبی تحریر پڑھواکر سنی،علاقے کی تاریخ پر آپ نے اچھا لکھا ہے"
دو تین سال پہلے جمعیتہ علماء بھاگلپور کے کاغذات وغیرہ کی مجھے تلاش تھی،میں ان ریکارڈ اور کاغذات کو دیکھنا چاہتا تھا، اسکا تذکرہ مولانا سے کیا تو انھوں نے اسی وقت اپنے سکریٹری مولانا مسیح الزماں صاحب کو فون کیا اور ان سے کہا کہ مولانا سرفراز آپ کے پاس کسی دن جائیں گے،انھیں جن کاغذات کی ضرورت ہو وہ دکھلا دیجئے اور ساتھ میں سکریٹری صاحب کے نام ایک خط بھی لکھ کر مجھے دیا کہ مسیج الزماں صاحب کو دے دینا۔ 
2024 میں حضرت مولانا کی ایک ضخیم کتاب"رہنمائے راہ طریقت" چھپ کر آئی تو مفتی اشفاق صاحب نے دیوبند سے وہ کتاب مجھے بھیج دی،میں نے اس پر تبصرہ کیا اور یہ لکھا کہ بہتر ہوتا کہ حضرت مولانا کے جو رسائل پہلے شائع ہوچکے ہیں اور اب نایاب ہیں پھرسے اسے ایک جگہ کرکے شائع کردیا جاتا تو یہ رسالے اورکتابیں محفوظ ہوجاتی،کیونکہ رسائل کے مقابلے کتابوں کی زیادہ ہوتی ہے،تو انکا فون آیا کہ بھائی آپ نے میری کتاب کا تعارف کرایا اور اس پر تبصرہ لکھا،لوگ اس کتاب کا مطالبہ کررہے ہیں،میرے پاس جتنی کتابیں آئی تھی میں نے سب تقسیم کردی،اسلئے جتنے لوگوں کا فون آیا سب کو بیلگام کا نمبر دے دیا کہ کتاب وہیں سے چھپی ہے،جسے ضرورت ہو وہاں سے منگوالیں" اورکچھ دنوں کے بعد اپنی آٹھ دس کتابیں جو پہلے شائع ہوئی تھی،تلاش کرکے میرے پاس بھجوائیں کہ آپ ہی یہ کام کیجئے اور ان کو جمع کرکے دوبارہ شائع کیجئے میری طرف سے اجازت ہے۔
12مئی 2025 کو مولانا سے فون پر میری آخری گفتگو ہوئی جب میں بھاگلپور سے حیدرآباد کےلئے نکل چکا تھا،انکا فون آیا اور فرمانے لگے"آپ کہاں ہیں بھائی؟میں نے کہا حضرت میں تو سفر میں ہوں،حیدرآباد جارہاہوں،کہنے لگے کہ آپ نے ملاقات بھی نہیں کیا اور چلے گئے،اسکے بعد کہنے لگے آج کچھ لوگوں کو اپنے یہاں بلایا تھا تو سوچاآپ بھی ظہر کے بعد آجاتے،چلئے کوئی بات نہیں پہونچ کر اطمینان سے بات ہوگی"سلام کے بعد مولانا نے فون رکھدیا،میری ان سے یہی آخری گفتگو ثابت ہوئی۔
حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب،اکابر و اسلاف کے ترجمان اور اس دور میں اسلام کی حقانیت کا ایک روشن چراغ تھے،ان کے علمی،دینی،دعوتی، تصنیفی،اصلاحی،سماجی اور ملی خدمات کا دائرہ نصف صدی سے زائد پر محیط ہے،وہ ایک عالم دین ہی نہیں بلکہ صاحب دل مفکر،پرسوز داعی اور کتاب و سنت کے رمز شناس تھے،وہ ایک کامیاب مدرس کے ساتھ افراد سازی میں بھی یکتائے روزگار تھے،وہ ایک طرف اکابر علماء اور بزرگوں سے استفادہ کرتے اور دوسری جانب اسے عوام میں تقسیم کرتے،ان کی تقریریں اور مجلسیں کتاب وسنت،انبیاء وصحابہ،علمائے اہل حق کے تذکروں اور انکے واقعات سے لبریز ہوتی تھیں،انکی تحریروں اور بیانات میں اصلاح معاشرہ کا پہلو نمایاں ہوتا،وہ جس  چیز کو حق سمجھتے اسے ببانگ دہل اور پوری قوت سے کہہ جاتے،اس سے قطع نظر کہ لوگوں کا تاثر اس سلسلے میں کیا ہوگا،وہ خانقاہی آدمی تھے،اسلئے انکے یہاں سب خانقاہی طرز کا ہوتا، گفتگو،چلنا پھرنا،اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا سب اسی رنگ کا ہوتا تھا،جس سے ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی ملتی تھی،وہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ انکی خانقاہ سے جڑجائیں،مگر اس دنیا کا نظام بھی عجیب ہے کہ ایک ایسا شخص جو برسوں لوگوں  کا نکاح و جنازہ پڑھاتا رہا،خوشی و غم کے ہر موقع پر شریک رہتا،مدارس اور دینی اداروں کے پروگرام انکی قیادت وصدارت میں ہوتے،علماء و اکابرین کی مجالس میں نمایاں طور پر انکی موجودگی ہوتی،سینکڑوں اجتماعات کو جنھوں نے خطاب کیا،ملک کی کئی خانقاہوں کا چکر لگایا اور بھر پور استفادہ کیا،بہار سے لیکر بنگلہ دیش،افریقہ اور ملک کی دیگر کئی ریاستوں یوپی،کرناک،مہاراشٹر وغیرہ  تک میں  علاقے کی نمائندگی کی اور اسے ایک شناخت دلائی،علاقے کا  بھر پور تعارف کرایا،ایک عرصے تک ہرنتھ میں انکا مکان اور مدرسہ امدادیہ عربیہ شاہ کنڈ اکابر و بزرگان دین کی 'جلوہ گاہ عارفاں' تھا،اس مکان میں ایم ایل اے،ایم پی جیسے دنیوی اورسیاسی  لوگوں کا آنا جانا ہوتا وہیں اہل اللہ اور اکابرین و بزرگوں کا قیام بھی رہتا تھا،اسی مکان سے رات کے آخری پہر اللہ اللہ اور ذکر واذکار کی دلنواز صدائیں آتی تھی۔ایک چھوٹے سے ادارے کو پروان چڑھانے کےلئے انھوں نے انتھک جدو جہد اور کوششیں کیں،اسے علاقے کا ایک مرکزی ادارہ اور جامعہ بنایا،ادارے کی تعمیر و ترقی کےلئے وہ کثرت سے مختلف ریاستوں کا سفر کرتے،انکی ذات علاقے کی پہچان بن چکا تھا،آج انکے آخری دیدار،انھیں اشک بار اور نم آنکھوں سے وداع کرنے اور انکے جنازے میں شمولیت کےلئے ہزاروں کی تعداد میں دور دراز علاقے سے علماء و عوام جمع تھے انکا جنازہ  آج کوئی اور پڑھا رہا تھا۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم
حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمی،بہار کے مردم خیز خطہ ضلع بھاگل پور کے ایک گاؤں' ہرنتھ' میں پیدا ہوئے،ان کے والد کا نام مولوی جہانگیر رحمانی عرف مولوی مستان ولد اشرف مرڑ ولد واحد علی ولد ناد علی ہے،انکے آباؤ اجداد کسی زمانے میں بلوا سلطان پور سے ہجرت کرکے ہرنتھ آئے اور یہیں کےمکین ہوگئے۔1946ء میں مولوی جہانگیر کے گھر انکی پیدائش ہوئی،مولوی جہانگیر صاحب مرحوم نماز روزے کے پابند ایک دیندار آدمی تھے،خاندانی طور پر زمین جائیداد کافی تھی،وہ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے،خانقاہ  رحمانی مونگیر اور وہاں کے بزرگوں سے انکا گہرا تعلق تھا،وہ حضرت مولانا سید لطف اللہ رحمانی (وفات 1342ھ مطابق 1924) خلیفہ و فرزند حضرت مولانا سیدمحمدعلی مونگیری سے بیعت تھے،اسی کا اثر تھا کہ وہ گاؤں کی مسجد میں اکثر نماز کی امامت کرتے بالخصوص نماز فجر کی،مولوی جہانگیر صاحب مرحوم اور انکی ایک بہن بی بی تبیجن یا تبیدن عرف تبجی (مولوی اکرام صاحب کی والدہ ) جو انتہائی دیندار اور تہجد گذار خاتون تھیں،دونوں بھائی بہن حضرت مولانا سیدلطف اللہ رحمانی کے مرید تھے اور انھیں کے بتائے ہوئے  اوراد و وظائف پر عمل کرتے تھے،اسی ماحول میں آپ کی پرورش اورنشو و نما  ہوئی،مولوی جہانگیر صاحب مرحوم نے دوشادیاں کی تھی،پہلی سمستی پور میں اور دوسری ہرنتھ میں،پہلے بیوی سے ایک لڑکا محمدادریس عرف گاما پیداہوئے،اب وہ بھی مرحوم ہوچکے ہیں۔دوسری بیوی سے تین لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی،بڑے فرزندمحمد ایوب صاحب جوکئی سال قبل انتقال کرگئے،دو سرے فرزند مولانا مطیع الرحمن صاحب،تیسرے اور چھوٹے فرزند مجیب الرحمن صاحب جو فساد بھاگلپور 1989 ء کے موقع پر علاقے کی کسی جماعت میں گئے ہوئے تھے وہیں فسادیوں نے انکو شہید کردیا،ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی جنکی شادی مولانا انیس الرحمن مفتاحی سے ہوئی(مولانا انیس الرحمن مفتاحی ہرنتھ کے باضابطہ پہلے عالم ہیں،مفتاح العلوم مئو یوپی سے فارغ التحصیل تھے،غالبا 1952/53 میں مفتاح سے فارغ ہوئے،فراغت کے بعد مدھے پورہ میں کسی سرکاری ادارے سے وابستہ ہوگئے تھے،وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے اورکچھ سال پہلے انتقال کرگئے۔) کافی پہلے انکا بھی انتقال ہوگیا،چاروں بھائی بہن اب مرحوم ہوچکے ہیں،سب صاحب اولاد ہیں حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔
گاؤں کے عام دستور کے مطابق جب آپ سن شعور کو پہنچے تو گاؤں کے مکتب ہی میں بٹھا دئے گئے،جہاں مولوی مشرف حسین صاحب مرحوم ہرنتھ(وفات جنوری 2004ء) اور حافظ الیاس صاحب(قصبہ) سے ابتدائی تعلیم حاصل کی،پھر جب اسی مکتب میں مدرسہ حسینیہ ہرنتھ قائم ہوگیا تو فارسی وعربی کی مزید تعلیم مجاہد آزادی مولانا تفضل حسین قاسمی پورینی(وفات 1987ء) بانی مدرسہ حمیدیہ خیرا،مولانا عبدالوہاب صاحب پورینی،مولانا نعمت اللہ صاحب پھلوڑیہ،حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمی(1918ء تا دسمبر 1995ء) سابق مہتمم مدرسہ حسینیہ ہرنتھ،حضرت مولانا شیخ اکرام علی صاحب (1936 تا 2008) سابق شیخ الحدیث جامعہ ڈابھیل،حضرت مولانا صوفی عبدالرزاق قاسمی صاحب سنہولی (1925 تا 2002) وغیرہ سے حاصل کی،عربی چہارم تک کی تعلیم مدرسہ حسینیہ ہرنتھ میں ہوئی۔ایک جگہ مولانا مرحوم مدرسہ حسینیہ ہرنتھ کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ"ممکن ہے آپ کو یہ معلوم نہ ہو،مدرسہ کے اصل بانیین اور محرکین یہ  افراد تھے محترم مولانا یعقوب صاحب مرحوم کرنپور،حاجی محمد معارف صاحب مرحوم کرنپور،جناب مولوی جہانگیر صاحب مرحوم ہرنتھ،جناب مولوی مشرف صاحب مرحوم ہرنتھ،جناب حافظ تمیزالدین صاحب مرحوم ہرنتھ،اسی طرح رادھانگر کے حاجی عثمان صاحب مرحوم وغیرہ  حضرات مدرسہ کے بانیوں میں سے ہیں اور سارے اساتذہ شروع میں مدرسہ قائم ہونے کے بعد ہرنتھ ہی کے مکتب میں رہا کرتے تھے اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تعلیم تو مدرسے میں ہوتی تھی اور طلبہ کا قیام ہرنتھ کی مسجد میں ہوا کرتا تھا،،پھر جب کچھ  گنجائش مدرسے میں بڑھی تو کا فیہ سے لیکر شرح جامی تک خود میں نے دیکھا اور میں بھی شریک درس تھا طلبہ جامعہ حسینیہ ہرنتھ میں منتقل ہوئے،مطبخ وغیرہ کا سارا نظام ہرنتھ کے مکتب ہی میں تھا،طلبہ کا رہنا سہنا  اور ہدایتہ النحو کی تعلیم تک ہرنتھ محلے کی مسجد ہی میں تھا،حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب،حضرت مولانا شیخ اکرام علی صاحب،حافظ عبدالرزاق صاحب اور جملہ اساتذہ ہرنتھ کے مکتب ہی میں قیام فرماتے تھے" 
دارالعلوم دیوبند میں
اسکے بعد مزید تعلیم کےلئے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند روانہ کئے گئے،جہاں 6 سال تک کبار اساتذہ سے استفادہ کیا اور 1966ء میں دورۀ حدیث سے فرغت پائی،دارالعلوم دیوبند میں جن اساتذہ سے آپ نے استفادہ کیا،ان میں بطور خاص حضرت مولانا سیدفخر الدین احمد مرادآبادی(1889 تا 1972ء) سابق شیخ الحدیث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا بشیراحمد خان صاحب(وفات 1966ء) حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی صاحب(وفات 1967ء) حضرت مولانا سیدفخر الحسن مراد آبادی صاحب(وفات 1398ھ) حضرت مولانا عبدالاحد دیوبندی صاحب،حضرت مولانا معراج الحق  دیوبندی صاحب (وفات 1991ء) اورحضرت مولانا شریف الحسن صاحب(وفات 1397ھ) وغیرہ شامل ہیں،دارالعلوم دیوبند میں کتنے سال مقیم رہے؟ اس سلسلے میں ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ"دارالعلوم دیوبند میں 6 سال کی مدت قیام کے آخری تقریبا تین سال فقیہ امت حضرت مفتی محمود حسن صاحب مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کی مجلس علم وذکر میں حاضر ہوتا"
 فراغت کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"احقر مطیع الرحمن قاسمی پینسٹھ اور چھیاسٹھ عیسوی ( 1965/66ء) میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوا"(دیکھئے اپنی اصلاح کا مکمل نصاب ص 51)
مولانا کی سن فراغت 1966/67 ہے،قطب الدین ملا صاحب نے ایک جگہ لکھا کہ" آپ نے دورۀ حدیث کے بعد مزید ایک سال تکمیل تفسیر میں لگایا،فراغت 1967ء کے اوائل میں ہوئی"(علم الشرائع والاحسان ص 7) 
اوپر کتابت کی غلطی ہے یا پھر مولانا سے سہو ہوگیا ہے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ" قیام دارالعلوم کے زمانے میں فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب(1907 تا 1996ء) سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کی مجلس علم و ذکر میں حاضر ہوتا رہا"(رہنمائے راہ طریقت ص 21) 
کچھ معروف رفقائے درس
حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب،جس سال دورۀ حدیث میں شریک تھے اور انکا آخری سال تھا،اس سال یعنی 1386ھ مطابق 1966ء میں انکے ساتھ جتنے طلبہ دارالعلوم سے فارغ ہوکراپنے اپنے وطن اور گھرلوٹے،انکی کل تعداد 303 تھی،یہ سب دورۀ حدیث کے طلبہ تھے،ملک اور علاقے کے کچھ معروف رفقائے درس یہ ہیں۔
حضرت مولانازکریا سنبھلی صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم ندوتہ العلماء لکھنؤ۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب،سابق استاذ و ایڈیٹر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند۔
حضرت مولانا خورشید حسن دیوبندی صاحب،سابق رفیق دارالافتاء دارالعلوم دیوبند۔
حضرت مولانا عبدالرشید بستوی صاحب سابق ناظم تعلیمات جامعہ امام انورشاہ دیوبند۔
مناظراسلام،حضرت مولانا محمد ابوبکر غازیپوری صاحب۔
حضرت مولانا فضل الرحمن دربھنگوی صاحب سابق استاذ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد۔
حضرت مولاناقاضی سمیع الدین نرساپوری صاحب حیدرآباد۔
حضرت مولانا عبدالمعبود خاں صاحب چترویدی بھاگلپور۔
حضرت مولاناعبدالطیف قاسمی صاحب سابق صدرمدرس مدرسہ حسینیہ ہرنتھ بھاگلپور۔
حضرت مولانا عطاءالرحمن قاسمی صاحب ہرنتھ بھاگلپور۔
حضرت مولانا نہال الدین قاسمی صاحب سابق استاذ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر بھاگلپور۔
حضرت مولانا واعظ الحق قاسمی صاحب سنہولی بھاگلپور۔
حضرت مولانا قمرالدین قاسمی صاحب جواکھر، بھاگلپور۔
حضرت مولانامسلم صاحب پتھنہ بھاگلپور۔
حضرت مولانا مسعوداحمدصاحب سنہولی بھاگلپور۔
شادی و اولاد
زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کا نکاح ہوگیا تھا،دارالعلوم سے فراغت کے بعد اہلیہ کی رخصتی عمل میں آئی،مولوی مشرف صاحب مرحوم کی دوسری صاحب زادی محترمہ شمیمہ خاتون سے آپ کی شادی ہوئی،موصوفہ نماز روزے کی پابند نیک دل اور نیک سیرت خاتون ہیں،جن سے دو فرزند مفتی فصیح الرحمن قاسمی،شفیع الرحمن اور پانچ بیٹیاں پیداہوئی،سب شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔
درس و تدریس کا آغاز
دارالعلوم دیوبند میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ تقریبا ختم ہوچکا تھا،رسمی فراغت ہوچکی تھی،اکابرین سے استفادہ جاری تھا اورساتھ ہی  میدان عمل میں قدم رکھنے کا وقت آچکا تھا،درس وتدریس کےلئے جگہ کی تلاش شروع ہوئی،چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب اور فقیہ امت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی دونوں اکابرین کے مشورے اور حکم  سے جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ یوپی،حضرت باندوی کے یہاں بھیج دئے گئے،جہاں تقریبا تیرہ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں،وہاں آپ نے جلالین شریف،مشکوت شریف،ہدایہ آخرین اور مختصرالمعانی  وغیرہ جیسی اہم کتابوں کا درس دیا اور یہیں سے تدریس کا آغاز کیا،اس سلسلے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"انہی دونوں بزرگوں اور دونوں شیخ کے مشورے سے تقریبا 13 سال کا عرصہ،برکت العصر حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندوی رحمہ اللہ کے جامعہ عربیہ ہتھورا میں حدیث و تفسیر فقہ اور دوسرے علوم میں تدریسی خدمت انجام دینے کا حق تعالی شانہ نے موقع عطا فرمایا"(رہنمائے راہ طریقت)
مدرسہ امدادیہ عربیہ شاہ کنڈ میں
جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ میں قیام کے دوران ہی آپ کے والد مولوی جہانگیر صاحب کا انتقال ہوگیا،والدہ کی دیکھ،ریکھ انکی دلبستگی اور خدمت کے لئے گھر میں قیام ناگزیر ہوگیا،ادھر علاقے میں ایک ادارہ،مدرسہ امدادیہ کے نام سے 1976/77ء میں موضع شاہ کنڈ،بھاگلپور میں قائم ہوگیا تھا،اس نوخیز مدرسے کو کسی عالم کی تلاش بھی تھی،اسی لئے حضرت ماسٹر محمد عباس صاحب(پیدائش 1936) بانی ومہتمم مدرسہ امدادیہ شاہ کنڈ اور علاقے والوں کا اصرار بھی بڑھتا گیا،حضرت باندوی اور دیگر بزرگوں کا مشورہ ہوا کہ آپ اپنے علاقے میں خدمت کریں اور علاقے کو ہی خدمت کا میدان بنائیں،علاقے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے غالبا 1979ء میں جامعہ ہتھورا باندہ کو  خیرآباد کہہ کر مدرسہ امدادیہ شاہ کنڈ کی خدمت و ترقی میں ہمہ تن مشغول ہوگئے اور مستقل یہیں خدمت کرتے رہے،مدرسے کی تعمیر وترقی میں مولانا مرحوم کی انتھک جدو جہد کے ساتھ ہی انکے لائق و فائق رفقائے کار کا بڑا دخل ہے،جسے حضرات اکابر کی تو جہات نے مزید پروان چڑھایا اور استحکام بخشا۔46 سال یہاں آپ نے خدمت انجام دیں،مولانا مرحوم جب باندہ سے یہاں منتقل ہوئے تو مختلف اکابر اور بزرگان دین کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا،فقیہ امت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی،سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی کےعلاوہ کئی بزرگوں کی آمد یہاں ہوتی رہی،بزرگوں کی توجہات نے روحانی ومادی،تعلیمی وتبلیغی پر جہت سے مدرسے کو مالا مال کیا،جسکا سلسلہ  آج بھی جاری ہے۔
مدرسہ امدادیہ عربیہ شاہ کنڈ کے بانی کون ہیں؟
موضع شاہ کنڈ میں بہت دنوں سے ایک دینی مدرسے کے قیام کی بات چل رہی تھی،کیونکہ علاقے میں جہالت عام تھی،لوگ دینی تعلیم سے دور تھے لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی،بالآخرحضرت ماسٹر محمدعباس صاحب نے ڈاکٹر نعیم صاحب،شاہ کنڈ،مولوی غلام ربانی صاحب شاہ کنڈ،شیخ یاسین صاحب جواکھر،شیخ ابو محمد صاحب انگلش،عبدالسلام صاحب انگلش اوراپنے دیگر بہت سے رفقاء کے تعاون سے شاہ کنڈ میں مدرسہ امدادیہ کی بنیاد رکھی،سب سے پہلے مدرسے کو اپنی پانچ کٹھہ زمین شیخ ابو محمد صاحب انگلش نے وقف کی اور اسطرح مدرسے کی بنیاد رکھ دی گئی،شیخ ابو محمد صاحب مدرسے کے پہلے سکریٹری اور حضرت ماسٹر عباس صاحب پہلے خزانچی بنائے گئے،بعد میں حضرت ماسٹر صاحب مہتمم بنائے گئے اور باقی زمینیں خریدی گئی،ایک چھوٹا سا مدرسہ دیکھتے دیکھتے اب ایک سایہ دار درخت اور بڑا جامعہ بن چکاہے،اس میں حضرت مولانا مرحوم کے علاوہ حضرت ماسٹر عباس صاحب بانی ومہتمم مدرسہ اور دیگر بانیان کی بے پناہ قربانیاں،جدو جہد اور انکا خلوص شامل ہے،اللہ تعالی ادارے کو ہمیشہ آباد رکھے اور ہرقسم کے شرور وفتن سے حفاظت فرمائے۔یہ مدرسہ سیدالطائفہ حضرت مولانا امداداللہ مہاجر مکی رح کے نام سے موسوم ہے اور انھیں کی یادگارہے۔
 بزرگوں سے اصلاحی تعلق
دارالعلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی سے ہی اہل اللہ اور بزرگوں سے آپ کا تعلق قائم ہوگیا تھا،اس سلسلے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"دارالعلوم دیوبند میں 6 سال کی مدت قیام کے آخری تقریبا تین سال فقیہ امت حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمہ اللہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کی مجلس علم و ذکر میں حاضر ہوتا رہا" کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ" دارالعلوم دیوبند میں آخری دو ڈھائی سال اکثر جمعرات کو فقیہ امت حضرت مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کی معیت میں دیوبند سے سہارنپور شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا زکریا صاحب سہارنپوری نور اللہ مرقدہ(پیدائش 1898تا 1983ء) کی خدمت میں حاضری دیتا رہا اور 24 گھنٹے کے جو معمولات حضرت شیخ الحدیث کے یہاں ہوتے تھے اس پر پابندی سے کاربند رہا الحمدللہ پھر حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے یہاں تعطیل کے موقع پر اکثر دارالعلوم دیوبند  سے سہارنپور حاضر ہوتا رہا،اسی طرح جب دارالعلوم دیوبند میں میرا آخری سال تھا،شب برأت کی تعطیل میں 15 شعبان سے عید تک حضرت رحمہ اللہ کے یہاں ان کی خدمت میں موجود رہا اور نور علی نور رمضان المبارک جیسا مقدس مہینہ مظاہر علوم سہارن پوری کی مسجد جدید میں حضرت کی نگرانی میں اعمال و اعتقاد کے ساتھ پورا وقت گزرا پھر تو ہر سال رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں کم و بیش قیام رمضان کا موقع بحسن کمال میسر ہوا"(رہنمائے راہ طریقت ص 22)  
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ" احقر ناکارہ کو جن مشائخ سے خوب خوب استفادہ کا موقع ملا اور زیادہ سے زیادہ صحبتیں میسر ہوئیں ان میں سر فہرست حضرت شیخنا و شیخ المشائخ، قدوۃ السالکین، قطب عالم،شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ نیز حضرت شیخی وسندی فقیہ الامت مفتی اعظم دارالعلوم حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ،اسی طرح شیخی و محسنی قطب وقت حضرت مولانا منورحسین صاحب رحمہ اللہ( 1908تا 1986) اور برکتہ العصر عارف باللہ حضرت مولانا صدیق صاحب رحمہ اللہ(1923تا 1997ء) کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں"(ص 20)
اوپر کے اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلوک و تصوف کی جانب انکا رجحان طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا،ایک جگہ انھوں نے لکھاہے کہ اس جانب انکا رجحان ابتدائے شعور سے ہے اور اہل اللہ  و بزرگان دین کی محبت سے انکا دل کبھی خالی نہیں رہا،علمی و عملی دونوں پہلو سے یہ تعلق تادم حیات رہا اور اسکو انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔
مولانا فرید احمد باقری صاحب اس تعلق سے لکھتے ہیں کہ"مولانا موصوف ازہرالہند دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، مادر علمی میں قیام کے دوران ہی حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن صاحب دامت برکاتہم مفتی اعظم ہند سے ربط و تعلق پیدا ہوا،جو  بفضلہ روز افزوں ترقی کرتا گیا،پھر حضرت ہی کے واسطے سے برکت العصر،شیخ المشائخ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ کے دامن فیض سے وابستگی نصیب ہوئی،حضرت شیخ کے وصال پر ملال کے بعد حضرت کے خلیفہ اجل حضرت مولانا منور حسین صاحب رحمہ اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور پھر حضرت کا سایہ بھی اٹھ گیا تو حضرت اقدس مفتی صاحب مدت فیوضہم سے اصلاح و تزکیہ کا تعلق قائم کیا اور یہ مولانا کی خوش نصیبی ہے کہ ترقی کرتے کرتے خلعت خلافت سے بھی سرفراز ہوئے" (دینی مدارس،مسائل اور انکا حل)
ادھر کئی برسوں سے مولانا مرحوم کا تعلق عارف باللہ حضرت مولانا قمرالزماں الہ آبادی صاحب (پیدائش 1933) سے بھی تھا اور کثرت سے الہ آباد آناجانا بھی ہوتا تھا،حضرت الہ آبادی صاحب بھی کئی بار مدرسہ امدادیہ شاہ کنڈ اور ہرنتھ انکے مکان پر تشریف لاچکے ہیں۔
انداز تربیت اور افراد سازی
قحط الرجال کے زمانے میں شخصیت کی تعمیر،مردم گری،رجال سازی اور افراد کی تیاری اس دور میں انتہائی دشوار گزار امر ہے بلکہ اس دور میں یہ وصف نایاب نہیں تو کامیاب ضرور ہے،مردم سازی کی صفت جو اب خال خال لوگوں میں ہی نظر آتی ہے، فیاض ازل کی طرف سے حضرت مولانا کو اس کا وافر حصہ ملا تھا آپ طلبہ کے اندر علمی ذوق پیدا کرنے کے ساتھ ان کی بہترین تربیت اور دین و شریعت کے مزاج کے مطابق ان کی ذہن سازی و کردار سازی کی طرف انکی خصوصی توجہ تھی،اپنے شاگردوں اور متعلقین کے اندر خالص اسلاف کے رنگ میں دین کی خدمت کا ایک جذبہ اور ولولہ پیدا کرنا انکا مشن تھا،اس پس منظر میں وہ نبوی اصولوں کو سامنے رکھ کر ذہن سازی،کردار سازی اور افراد سازی کےلئے زبان وقلم دونوں کا استعمال کرتے رہے،مولانا کے شاگردوں اور مستفیدین کا ایک بڑا حلقہ موجود ہے جو انکے نام کا شیدائی،انکے علم وہنر اور بے مثال تعمیر و تربیت کا سب سے بڑا گواہ ہے،تقریبا ساٹھ برس کے طویل عرصے میں ہزاروں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے،چند معروف تلامذہ کے نام یہاں لکھے جارہے ہیں،جنھوں نے مولانا سےکسب فیض کیاہے۔
حضرت مفتی عزیزالرحمن فتح پوری صاحب،مفتی اعظم مہاراشٹر۔
حضرت مولانا حبیب احمد باندوی صاحب،مہتمم جامعہ ہتھورا باندہ۔
حضرت مولانا نجیب احمد باندوی صاحب،فرزند حضرت قاری صدیق صاحب۔
حضرت مفتی عبیداللہ اسعدی صاحب،شیخ الحدیث جامعہ ہتھورا باندہ۔
حضرت مولانا قاری نثار احمد ثاقب صاحب،استاذ جامعہ اکل کوا۔
حضرت مولانا انیس الرحمن الہ آبادی صاحب،استاذ جامعہ ہتھورا باندہ۔
حضرت مولانا صوفی محمد صاحب،استاذ جامعہ ہتھورا باندہ۔
حضرت مولانا اظہارالحق مظاہری صاحب،ناظم اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار۔
حضرت مولانا احمد عبداللہ طیب قاسمی صاحب،ناظم اشاعت الخیر ٹرسٹ حیدرآباد۔
حضرت مولانامحمدعبدالرحیم بانعیم مظاہری صاحب،ناظم مجلس علمیہ تلنگانہ و آندھرا۔
حضرت مولانا محمد طلحہ قاسمی صاحب ممبئی۔
حضرت مولانا محمود احمد خاں دریا آبادی صاحب ممبئی۔
حضرت مولانا مفتی محمد زید مظاہری صاحب استاد ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ 
حضرت مفتی عبدالمغنی مظاہری صاحب مرحوم سابق صدر سٹی جمعیتہ علماء حیدرآباد۔ 
حضرت مولانا محمدمرتضی قاسمی صاحب مرحوم سابق ناظم دارالعلوم بالاساتھ، سیتامڑھی،بہار۔
حضرت مولانا امین اشرف صاحب مرحوم سیتامڑھی بہار۔
حضرت مولانا ثمین اشرف صاحب سیتامڑھی،مقیم دبئی۔
عارف باللہ حضرت مولانا ابراہیم پانڈور صاحب افریقہ۔
حضرت مولانا سہول جامعی صاحب ناظم دارالقران لوگائیں بھاگلپور۔
حضرت مولانا مفتی محمداحسن قاسمی صاحب صدر مدرس وسیم العلوم برہ پورہ،بھاگلپور۔
حضرت مولانا مفتی محمود جبل پوری صاحب۔
حضرت مولانا مفتی کلام الدین جامعی صاحب مرحوم سابق ناظم تعلیمات مدرسہ امدادیہ شاہ کنڈ بھاگلپور۔
حضرت مولانا قاری عبدالستار قاسمی صاحب،استاذ جامعہ اکل کوا۔ 
حضرت مولانا مفتی نثاراحمدقاسمی صاحب ناظم تعلیمات جامعہ فرقانیہ کرن پور بھاگلپور۔ 
حضرت مولانا ہارون ثاقب قاسمی صاحب دریاپور مقیم الہ آباد۔
حضرت مولانا مفتی محمد طاہر نادری مظاہری صاحب شیخ الحدیث روضۃ الطیبات بھٹنڈی جموں کشمیر ۔
حضرت مولانا نظام الدین قاسمی صاحب استاذ حدیث جامعہ عائشہ نسواں حیدرآباد۔
دینی مدارس کی سرپرستی ونگرانی
حضرت مولانا مرحوم مدارس کے پروگرام اور اسکی تقریبات میں برابر شرکت کرتے رہے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے،کئی اداروں کی براہ راست سرپرستی و نگرانی کرتے رہے،مدارس کے ذمہ داران بھی ان سے رجوع کرتے رہے،درجنوں مدارس کی سرپرستی انھیں حاصل تھی ان میں چند اداروں کی ایک زمانے سے وہ شوری کے رکن رہے  اور بحیثیت ممبر شوری شرکت بھی کرتے۔
رکن مجلس شوری جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ یوپی۔
رکن مجلس شوری دارالعلوم بہادر گنج کشن گنج بہار۔
رکن مجلس شوری مدرسہ حسینیہ ہرنتھ بھاگلپور بہار۔
سرپرست مدرسہ دارالقرآن لوگائیں شاہ کنڈ بھاگلپور۔
جمعیتہ علماء کے پلیٹ فارم پر
ملک میں جو تنظیمیں سماجی وملی خدمات انجام دے رہی ہیں،ان میں ایک نمایاں نام جمعیتہ علمائے ہند کا بھی ہے،اکابر اور بزرگوں نے اس تنظیم کو ایک صدی قبل قائم کیا تھا،اپنے قیام سے لیکر آج تک یہ تنظیم متحرک و فعال ہے اورمختلف خدمات انجام دے رہی ہیں،پورے ملک میں اسکی ریاستی،ضلعی، علاقائی یونٹیں اور شاخیں قائم ہیں،بھاگلپور میں آزادی کے بعد ہی مقامی یونٹ قائم ہوگئی تھی،ایک زمانے میں  جمعیتہ علماء بھاگلپور ملک کی انتہائی متحرک اور فعال یونٹ سمجھی جاتی تھی،گزشتہ دنوں جمعیتہ علماء میں جب اختلاف کا قضیہ نامرضیہ پیش آیا،تو اسکا اثر بھاگلپور بھی پہونچا اور یہاں بھی دو دو جمعیت قائم ہوگئی،الگ الگ ذمہ داران منتخب ہوئے اور ایک جمعیتہ کی صدارت مولانا مرحوم کے حصے میں آئی،غالبا 2010/12  میں آپ کو جمعیتہ علماء ضلع بھاگلپور(الف) کا صدر منتخب کرلیاگیا،اس عہدے پر آپ تاحیات فائز رہے اوراس پلیٹ فارم سے مختلف کام کرتے رہے،آپ کی کار کردگی اور اعتمادکو دیکھتے ہوئے،پٹنہ میں ریاستی جمیتہ میں بھی آپ کو نمائندگی دی گئی اور گزشتہ دو ٹرم سے جمعیتہ علماء بہار کے نائب صدر کی حیثیت سے آپ منتخب کئے گئے۔
حج وعمرہ کے مقدس اسفار
انسان کادل جب حب الہی اور حب نبی سے سرشارہو،دلوں میں پوشیدہ عشق ومحبت کی چنگاری ارتقا کو چھوکر شعلے کی شکل اختیار کرنے لگے اور محبوب کے دیدار دل بے چین ہونے لگے تو پھر ہرمسلمان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح مکہ المکرمہ اور مدینتہ المنورہ زادہ اللہ شرفا وکرامتا جانے کی تیاری کرے اور برسوں کی آرزو پوری ہو،مولانا مرحوم کی زندگی عشق الہی اور سنت نبویﷺ سے عبارت تھی لہذا آپ کی یہ سچی تڑپ رنگ لائی اور یکے بعد دیگرے مقامات مقدسہ کا کئی سفر کیا،حج کا پہلا سفر غالبا 1991/92 میں ہوا،دوسرا سفر2008 میں اور اسکے بعد تیسرا سفر بھی ہوا،اسی طرح عمرہ کے بھی کئی اسفار کئے۔
تصنیف و تالیف کا  ذوق
اوپر کی ان تمام مصروفیات کے باوجود آپ کے اندر  مطالعہ اور تصنیف و تالیف کا جذبہ بھی موجود تھا،جولوگ لکھنے پڑھنے سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ تصنیف و تالیف کا کام کتنا مشکل اور کتنا نازک ہے،اسکے لئے یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے،ذہن اگر خالی اور یکسو نہیں ہے تو پھر تصنیف وتالیف کا کام بالکل نہیں ہوسکتا،اس میدان کو بھی مولانا نے سر کیا اورکارہائے نمایاں انجام دیں،کئی کتابیں آپ کی عوام و خواص میں کافی مقبول ہوئی،علماء واکابرین نے اسکی پذیرائی کی،20 سے زائد کتابیں اور رسائل آپ کے قلم سے منظر عام پر آئے،اکثر کتب و رسائل،سالکین و مستفیدین کی تربیت،عصر حاضر کے مسائل اور اصلاح معاشرہ کے مختلف عنوان سے ہے اور آپ کے خطابات کا مجموعہ ہے،بیش تر کتابوں میں کتابت کی غلطیاں،عناوین کی تصحیح اور نظر ثانی کی ضرورت ہے،جو رسائل پہلے لکھے گئے ہیں اور اب نایاب ہیں انھیں تلاش کرکے تخریج وتحقیق کے بعداگر ازسر نو اسکی اشاعت کا اہتمام ہوجائے تو یہ ایک اہم کام ہوگا۔یہاں ان کتابوں کی فہرست دی جارہی ہے۔
(1) دینی مدارس مسائل اور انکا حل صفحہ 96۔
(2) دسویں محرم کے مشغلے۔
(3) رہنمائے راہ شریعت۔
(4) رہنمائے راہ طریقت صفحہ 480۔
(5) فیضان مطیع جلداول صفحہ 144۔
(6) علم،عمل اور علماء صفحہ 56۔
(7) علم الشرائع والاحسان صفحہ 88۔
(8) حاسدین اور انکا حسد صفحہ 48۔
(9) نسخہ حصول معرفت صفحہ 48۔
(10) فکرآخرت میں اضافہ اوراسکی تیاریاں صفحہ 24۔
(11) اتباع سنت واطاعت رسول صفحہ 32۔
(12) عصبیت ایک بڑی لعنت صفحہ 32۔
(13) تصحیح معاملات اور حقوق العباد صفحہ 24۔
(14) نسخہ فلاح صفحہ 24۔
(15) احکام الدعاء۔
(16) احکام المساجد۔
(17) معرفتہ الحقوق۔ 
(18) معمولات محمودیہ(پاکٹ سائز)صفحہ 110۔
(19) التسہیل الغریب جلد اول صفحہ 160۔
(20) التسہیل الغریب جلد دوم زیر طباعت۔
(21) خود نوشت سوانح حیات زیر طبع۔
"التسہیل الغریب" نامی یہ کتاب دراصل حضرت تھانوی کی ایک اہم اور ضخیم کتاب"التکشف عن مہمات التصوف" کے نام سے ہے،اسی کتاب کا ایک حصہ اورمختصر سا رسالہ "حقیقتہ الطریقہ من السنتہ الانیقہ" کے نام سے ہے،جس میں تصوف سے متعلق 330 احادیث کو حضرت تھانوی نے جمع کیاہے،اسکے سارے مضامین قرآن وحدیث سے اخذ کردہ ہیں،حضرت تھانوی کی یہ کتاب قدیم اردو زبان میں ہے،جس میں آدھے سے زائد الفاظ فارسی کے ہیں،اسکا رسم الخط بھی قلمی ہے،عام لوگوں کےلیے اس سے استفادہ انتہائی مشکل تھا،حضرت مولانا مرحوم نے اسی کی تشریح و توضیح عام فہم زبان میں کی ہے،جس میں نمبر وار حدیث کو ذکر کرکے پہلے اسکا ترجمہ اور تشریح و توضیح کرکے اس کتاب کو عام لوگوں کےلئے قابل استفادہ بنادیا ہے،یہی کتاب التسہیل الغریب" کے نام سے ہے،پہلی جلد میں سو حدیثیں ہیں جو شائع ہوچکی ہیں،دوسری جلد میں بھی سو حدیثیں ہیں جو طباعت کے مرحلے میں تھی اور مولانا رخصت ہوگئے،239 حدیث پر کام ہوچکا تھا،خداکرے یہ کام بھی تکمیل تک پہونچے۔
خود نوشت سوانح حیات پر بھی کام چل رہا تھا،لیکن یہ بھی ادھورا رہ گیا،خلاصہ یہ ہے کہ مولانا کے جانے سے بہت سا کام رک گیا ،اللہ تعالی انکے جانشین کو ہمت اور توفیق دے کہ وہ انکے چھوڑے ہوئے ادھورے کاموں کی تکمیل کریں۔
جن کتابوں کی فہرست مجھے دستیاب ہو سکی ہے وہ یہاں دی گئی ہیں،ممکن ہے اس کے علاوہ بھی اور کتابیں ہوں،کیونکہ انکے یہاں ریکارڈ  جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا،اسکے علاوہ اپنے بزرگوں،شاگردوں،مریدین،متوسلین،مستفدین اور دیگر لوگوں سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ کرتے رہے،ان کو خطوط لکھتے رہے،ان لیٹروں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہوں گی،بعض خطوط میں علمی،تاریخی اور بہت سے ایسے مضامین ہوتے تھے جو یقینا بعد والوں کےلئے نفع بخش ہوسکتے ہیں،اگر ان خطوط کو یکجا کرکے شائع کردیا جائے تو یہ بھی ایک اہم کام اور بڑی خدمت ہوگی۔
کچھ دیگرخصوصیات و کمالات
ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ خصوصیات و کمالات کے علاوہ  کمیاں اورکوتاہیاں بھی ہوتی ہیں،صرف جماعت انبیاء ان چیزوں سے مبرا ہے وہاں کمیوں،کوتاہیوں اور خامیوں کا کوئی تصور نہیں ہے،باقی دوسرے لوگ اس قید سے آزاد نہیں ہیں،ممکن ہے حضرت مولانا کے اندر بھی کمی اور کوتاہی رہی ہو،کیونکہ انکی ذات بھی فرشتہ نہیں تھی،اسلئے ہمیں یہ حکم دیا گیاہے کہ اذکرو!محاسن موتاکم  یعنی تم اپنے مرنے والوں کے خوبیوں اورکمالات کا تذکرہ کیا کرو"اسلئے ہمیں مرحومین کی اچھائیوں کا تذکرہ ہی کرنا چاہیے،حالانکہ حالات بیان کرنے میں اچھائی،برائی،نیکی اور بدی سبھی چیزیں آتی ہیں،لیکن اللہ رب العزت ستار العیوب ہے اور حدیث میں رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ"جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اسکی پردہ پوشی کرے گا" ایک اور حدیث میں ہے کہ"جس کسی نے اپنے بھائی کی پردہ پوشی کی تو کل روز قیامت اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کرے گا"(مسلم شریف) لہذا یہاں انکی کچھ خصوصیات وکمالات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
دینی تصلب اور دین کے ساتھ وفاداری
حضرت مولانا ایک پختہ اور دینی فکر کے حامل تھے،جس چیز کو درست سمجھتے اس پر پوری قوت سے جمے رہتے،جس کو حق سمجھا پوری طرح اس کے ساتھ رہے،جسے حق سے منحرف پایا برملا اس کا اظہار کیا،اللہ اسکے رسول اور ان کے دین سے وفاداری کا عہد و پیمان باندھا تو پھر کبھی سر منہ انحراف نہ کیا یہ ان کی ایک اہم خصوصیت تھی۔ 
قرآن کریم سے غیر معمولی تعلق
حضرت مولانا کا قرآن کریم سے تعلق اور وارفتگی دیدنی تھی،قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت،اسکے معانی میں غور و تدبر اسکا عوامی درس،اسکے ترجمہ و تفسیر کی تدریس ان سب کے ساتھ آپ کا شغف غیر معمولی تھا،حالاں کہ وہ حافظ نہیں تھے اسکے باوجود تہجد کے بعد،فجر سے پہلے،فجر کے بعد،عشاء کے بعد اور دیگر اوقات میں،تلاوت قرآن انکا معمول تھا اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے۔
اللہ کی ذات پر توکل اور دعاؤں کا اہتمام
انکو اللہ کی ذات پر بے پناہ توکل تھا اور اسکا مشاہدہ انکے بیانات اور خطابات میں ہوتا تھا جہاں وہ اللہ کی ذات پر توکل اور اسکا اہتمام کرنے کی ہمیشہ تلقین کرتے تھے اور اس پر زور دیتے تھے،بڑے بڑے حادثے کے وقت زبان پر صبر وشکر کے کلمات جاری رہتے،انکے اطمینان ویقین کی کیفیت یہ تھی کہ دوسرے پریشان حال لوگ آپ کی خدمت میں پہونچ کر مطمئن اور پرسکون ہوجاتے تھے،نماز اور دعاؤں کا بہت اہتمام تھا اور دوسرے لوگوں کو اسکی بڑی تاکید کرتے تھے۔
اتباع سنت کا اہتمام
حضور اکرم ﷺ کی ذات بابرکات سے جو والہانہ لگاؤ اور فداکارانہ محبت تھی وہ کسی اہل تعلق سے مخفی نہیں ہے وہ حتی المقدور اس بات کی کوشش کرتے کہ کوئی کام سنت کے خلاف نہ ہو،تہجد کی پابندی ہمیشہ رہی،سفر،حضر،بارش وغیرہ ہرموسم میں اوقات تہجد میں بیدار ہوتے،نماز پڑھتے،اسکے بعدتلاوت اور اوراد و ظائف میں مشغول ہوجاتے اور یہ مشغولیت فجر تک رہتی پھر اسکے بعد نماز فجر کےلئے مسجدتشریف لے جاتے۔
فتنوں اور نزاع  کی جگہوں سے اجتناب
اپنے متعلقین و متوسلین کو ہمیشہ اس بات کی تاکید فرماتے کہ وہ فتنوں اور نزاع کی جگہوں میں جانے سے بچیں،اسکا اہتمام اپنی زندگی میں خود بھی کرتے رہے اور دیگر لوگوں کو ہدایات بھی دیتے رہے،جہاں انکو محسوس ہوتا کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے کوئی فتنہ ہوسکتا ہے وہ ایسی جگہوں سے خاموشی سے نکل جاتے تھے۔
شفقت،خرد نوازی اور حوصلہ افزائی
اپنے ہر ملنے اور ملاقات کرنے والوں سے پوری خندہ پیشانی اور توجہ کے ساتھ ملتے تھے،ایسے لوگوں سے بھی وہ ملتے جنکی سماج اور معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی،انکے سلام کا جواب دیتے انکے مسائل سنتے اور انکی اصلاح کرتے،اپنے شاگردوں،مریدین اور مستفیدین کے علاوہ گھر والوں کی بھی بے حد حوصلہ افزائی فرماتے تھے،ایک دن ہم لوگ مولانا کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے،کسی مسئلے پر گفتگو چل رہی تھی،اس میں کئی لوگ موجود تھے،میں نے اجازت چاہی،مزاحا فرمانے لگے ابھی تو اذان بھی نہیں ہوئی بھائی ابھی آپ کیسے جائیں گے؟میں بیٹھ گیا،کچھ دیر کے بعد آندھی طوفان کے ساتھ بہت تیز بارش ہونے لگی،نماز کےلئے مسجد جانا مشکل ہوگیا ایک صاحب غالبا مقصود مرڑ(خیرا) نے کہا حضرت اب تو بارش شروع ہوگئی،گرم گرم کوئی اچھا ناشتہ وغیرہ منگوائیے،کچھ ہی دیر میں بہترین قسم کی گرم گرم پکوڑی،بھجیا اور دیگر ناشتے کے ساتھ چائے حاضر کئے گئے،بارش کا لطف لیتے ہوئے سب لوگوں نے ناشتہ اورچائے نوش کیا،اور بعض لوگ ناشتے کی تعریف بھی کرنے لگے،اسی درمیان مولانا نے فرمایا کہ میں گھر کی خواتین کو ہمیشہ نوازتا رہتا ہوں،یہ لوگ ہمارے مہمانوں کی بڑی خدمت کرتی ہیں،اسلئے کبھی بڑی بہو،کبھی چھوٹی بہو اور کبھی فصیح کی والدہ وغیرہ کو انعام کے طور پر نوازتا رہتا ہوں،مغرب کی اذان ہوچکی تھی،ناشتے سے فراغت  اور وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر مجھ سے فرمایا کہ چلئے آپ نماز پڑھائیے،نماز تو آپ ہی کو پڑھانا ہے،چنانچہ میری اقتدا میں نماز مغرب ادا کی گئی،اسطرح انکی حوصلہ افزائی اور خرد نوازی کا مشاہدہ ہوا۔
خانقاہوں کا قیام اور خلفاء
خانقاہوں کا مقصد دلوں کی اصلاح،نفس کا تزکیہ اور روحانیت کا فروغ ہے،اسی مقصد سے اکابر علماء اور بزرگان دین خانقاہیں قائم کرکے بگڑے ہوئے اور بے راہ روی کے شکار لوگوں کو راہ راست پر لاتے رہے ہیں،بیعت وسلوک کا بنیادی مقصد یہی ہے جہاں سالکین مسترشدین اور مریدین حضرات کو مجاہدہ نفس کی ٹریننگ اور تعلیم دی جاتی ہے،اصلاحی تعلق کے بغیر انسان کا ذوق عبادت اور شوق ریاضت ماند پڑنے لگتاہے اور شیخ کامل کے بغیر عبادت میں نکھار پیدا نہیں ہوتا اور نہ ریاضت میں پورا پورا لطف حاصل ہوسکتاہے،حضرت مولانا مرحوم اسی لائن کے آدمی تھے،اس سلسلے میں انھیں بے حد دلچسپی تھی،اسی لئے انھوں نے کئی جگہوں میں خانقاہ قائم کی،انکے مکان ہرنتھ میں یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری تھا اور ہفتے میں ایک دن جمعرات یا جمعہ کو عصر کے بعد مجالس ذکر کا اہتمام ہوتا تھا جس میں دلچسپی رکھنے والے لوگ شریک ہو تے تھے،اسی طرح ایک خانقاہ انکی جدوجہد سے کرناٹک کے بیلگام میں بھی کئی سال قبل قائم ہوا اور پابندی کے ساتھ وہاں ذکرو اذکار کی مجالس ہوتی تھی،30/35 سال سے مولانا ہرسال وہاں رمضان المبارک کے مہینے میں تشریف لے جاتے اور اخیر عشرے کا اعتکاف بھی کرتے تھے،قطب الدین ملا صاحب مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ" 1988 یا 89 کا شروع تھا کہ بعد نماز مغرب بہ سلسلہ دستار بندی شاہ کنڈ میں ایک اجلاس عام ہوا،اس میں فقیہ امت حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمہ اللہ نے شرکت فرمائی،ایک بہت بڑا مجمع شریک اجلاس ہو کر حضرت مفتی صاحب قدس سرہ  کے بیان سے مستفید و مستفیض ہوا،بعد نماز فجر عقیدت مندوں کا ایک بڑا حلقہ جو ضلع بھاگلپور اور اکناف شہر کا تھا،حضرت مفتی صاحب سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کے لئے حضرت مفتی صاحب کی قیام گاہ پر حاضر ہوا،حضرت مفتی صاحب نے حضرت (مولانا مطیع الرحمان صاحب)  سے فرمایا کہ تم ان لوگوں کو بیت کرلو تو حضرت نے عرض کیا کہ حضرت میں اس لائق نہیں ہوں،پھر مفتی صاحب نے فرمایا اچھا تو آج میں آپ کو بیعت کی اجازت دیتا ہوں،میں(مفتی صاحب) ان لوگوں کو بیت کرلیتا ہوں مگر یہ سب آپ ہی کے زیر تربیت رہیں گے اور آپ ہی ان کے شیخ ہیں،اس طرح حضرت کو مفتی صاحب سے بیعت کی اجازت مل گئی اور خلافت سے سرفراز ہوئے،بیعت و خلافت ایک رسم نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے،اس ذمہ داری کا احساس حضرت کو خوب تھا اس لئے متوسلین کی تربیت کے لیے آپ نے خانقاہی نظام بھی شروع فرمایا،آپ سے بیعت کا تعلق رکھنے والے بھاگلپور، مونگیر،جموئی،صاحب گنج اور کرناٹک ضلع بیلگام میں خاصی تعداد میں ہیں،آپ ایک سال بھاگلپور میں اور ایک سال بیلگام میں اعتکاف فرماتے ہیں،بیلگام میں ہر اتوار کو آپ کے متوسلین دو ڈھائی گھنٹے کے لئے جمع ہو کر مجلس ذکر قائم کرتے ہیں اور ذکر جہری کرتے ہیں،اسی طرح ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو شہر اور اطراف کے متوسلین حضرات جمع ہوتے ہیں، مجلس ذکر قائم ہوتی ہے، ذکر، دعا، درود،صلوۃ و سلام کا اہتمام ہوتا ہے،ان مجالس کی نگرانی حضرت ہی کے اجازت یافتہ محترم الحاج محمد زید صاحب سلمہ فرماتے ہیں،اللہ تعالی ہر طرح کے شرورو فتن سے حفاظت فرمائے اور مجالس کو مناسبت ذکر کے پیدا ہونے کا سبب بنا کر اپنی رضا کی دولت عطا فرمائے"(علم الشرائع والاحسان) اسطرح خانقاہ کا نظام قائم کرکے کئی لوگوں کو مولانا نے خلافت سے بھی نوازا۔ 
وفات اور تجہیز و تکفین
گزشتہ تقریبا ایک ہفتے سے مولانا بخار،پیٹ میں تکلیف اور سینے میں جلن محسوس کررہے تھے،اسی حال میں 28 جون 2025 کو ہفتے کے دن مدرسہ امدادیہ شاہ کنڈ تشریف لے گئے اور ڈاکٹر کو بھی دکھلایا،حسب معمول مدرسے میں اپنے فرائض منصبی کو پورا کرنے کے بعد گھر جانے کے ارادے سے گاڑی میں سوار ہوئے،اسی دوران ایک ہچکی سی آئی،گاڑی میں ہی جسم پر لرزہ طاری ہوا اور آنا فانا جان،جان آفریں کے سپرد کرگئے،ڈاکٹر وغیرہ کو بلایا گیا لیکن انکا وقت پورا ہوچکا،تھا اسلئے ساری امیدیں ختم ہوگئیں اورشام چار سوا چار بجے آپ مالک حقیقی سے جاملے،گزشتہ کئی سالوں سے آپ کا معمول یہ تھاکہ صبح مدرسہ جاتے اور عصر سے پہلے یا عصر کے بعد گھر تشریف لے آتے تھے،آپ کی عمر تقر یبا 80سال ہوئی،جسد خاکی مغرب سے کچھ پہلے شاہ کنڈ سے انکے گھر ہرنتھ لایا گیا اور دوسرے دن بعد نماز عصر نماز جنازہ ادا کی گئی،جنازے کی نماز انکے بڑے فرزند اور جانشین مفتی فصیح الرحمان قاسمی صاحب نے پڑھائی،ہرنتھ کے وسیع و عریض اور آبائی قبرستان میں اس امانت کو ہمیشہ کے لئے سپرد خاک کردیا گیا،شہر سے دور اس گاؤں دیہات میں جنازے میں  ایک محتاط اندازے کے مطابق 8/10 ہزار کا مجمع شریک رہا،اس میں علاقے کے مدارس کے علماء،تلامذہ،مسترشدین،متوسلین اور منتسبین بھی شامل تھے،اتنی بڑی تعداد یقینا عنداللہ مقبولیت اور عندالناس محبوبیت کی دلیل ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جنازے میں اور زیادہ بھیڑ جمع ہوتی لیکن اسی دن پٹنہ کے گاندھی میدان میں ریاستی سطح کا پروگرام ہورہا تھا،جس میں شرکت کےلئے پوری ریاست اور اس علاقے سے بھی لوگوں کی بڑی تعداد پٹنہ کےلئے نکل چکی تھی۔
ہرنتھ گاؤں کا یہ دوسرا بڑا جنازہ تھا،پہلے نمبر پر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب سابق مہتمم جامعہ حسینیہ ہرنتھ کا تھا،حضرت مولانا قمرالحسن صاحب لکھتے ہیں کہ"یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ صدر جمعیت علماء ضلع بھاگلپور،حضرت الحاج مولانا عبدالرحمن صاحب مجاز امیر الہندو جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسد مدنی دامت برکاتہم صدر جمیعت علماء ہند اور اپنے اسلاف و اکابر بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے مشن کے علمبردار 21 دسمبر سن 1995ء کی صبح جامعہ حسینیہ ہرنتھ بھاگلپور میں نماز فجر سے فارغ ہو کر ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے،اور 75 سالہ زندگی گزار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون اسی روز بعد نماز مغرب جامعہ حسینیہ ہرنتھ کے احاطہ میں ہی اپنے ہزاروں ہزار عقیدت مندوں اور پروانوں کے ہجوم میں سپرد خاک کردئے گئے،بلاشبہ آج بھاگلپور کا علمی و دینی حلقہ سماجی اور خدمت خلق کا میدان سوگوار اور ماتم کناں ہے، بچہ بچہ کو آخری دیدار کےلئے گھنٹوں انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑا،مرحوم علوم دینیہ کی اشاعت اور سماجی خدمات میں ضلع بھر میں منفرد اور ممتاز مقام رکھتے تھے بلکہ اپنی پوری زندگی وقف کر دیا تھا"
 حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب کا انتقال ضلع بھاگلپور اور آس پاس کے علاقے کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے،اللہ تعالی تمام پسماندگان ولواحقین کو صبرجمیل عطافرمائے،حضرت مولانا مرحوم کے وصال کے بعد اکابرعلماء کی موجودگی میں انکے بڑے صاحب زادے مفتی فصیح الرحمن قاسمی صاحب کو انکا جانشین منتخب کرلیا گیا اور بعد میں مدرسہ امدادیہ شاہ کنڈ کی شوری نے بھی مفتی فصیح صاحب کو بالاتفاق صدرالمدرسین اور نائب مہتمم منتخب کیا،اللہ تعالی اس انتخاب کو قبول فرمائے اور مفتی فصیح صاحب کے عمر میں علم میں برکت عطا فرمائے،مفتی فصیح صاحب ایک جواں سال عالم دین ہیں،عمر 45/50 کے قریب ہوگی،وہ بڑے باپ کے بیٹے اور صلاحیت صالحیت میں بھی ممتاز ہیں اوربڑی ذمہ داریاں انکے سپرد کی گئی ہیں،بہت ساری توقعات ان سے وابستہ ہیں،اس لئے امید کی جانی چاہیے کہ وہ حضرت مولانا مرحوم کے چھوڑے ہوئے کاموں کو تکمیل تک پہنچائیں گے،ادارے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار اداکریں گے اور اپنے والد کے فکر کو آگے بڑھائیں گے۔

(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com

What's Your Reaction?

Like Like 0
Dislike Dislike 0
Love Love 0
Funny Funny 0
Angry Angry 0
Sad Sad 0
Wow Wow 0