*تحریک آزادی میں علماء کرام کی زبردست قربانیاں*

*تحریک آزادی میں علماء کرام کی زبردست قربانیاں*

Aug 14, 2025 - 22:41
Aug 14, 2025 - 22:55
 0  132
*تحریک آزادی میں علماء کرام کی زبردست قربانیاں*

 *خالد انور مظاہری بانکوی* 

7250817292

آزادی کون نہیں چاہتا؟ مگر آزادی کو بدرجہ اتم وہی سمجھ سکتا ہے جس کی حرماں نصیبی میں کبھی طوقِ غلامی رہا ہو ۔ باشندگانِ ہند کے لئے جب آزادی کا لفظ بولا جاتا ہے تو ذہن طویل جد و جہد ، تختہ دار، پھانسی کے پھندوں ، بے مثال قربانیوں ، زبردست تحریکوں ، لمبی صعوبتوں ، اور مصائب و مشکلات کی دشوار گزار گھاٹیوں اور وادیوں کی طرف منتقل ہوتا ہے ۔ ہمارے علماء اسلاف نے آزادی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں ہیں ۔ باشندگانِ ہند کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے تن کے گورے من کے کالے انگریز تھے جو بغرضِ تجارت یہاں آئے تھے ، اس لئے عام لوگوں نے اس کی طرف خاصی توجہ نہ کی، مگر رفتہ رفتہ یہ مکار و چالباز لوگ یہاں کے باشندوں میں نفرت کا ماحول قائم کرنے لگے ، اور" لڑاو اور حکومت کرو" والا فارمولہ اپنا کر یہاں کے معصوم عوام پر رعب و دبدبہ قائم کیا ، حصولِ اقتدار کے لئے طرح طرح کی چالیں چلیں ، رشوتوں کا بازار گرم کیا ، اور ہندوستانیوں میں آپس میں غلط فہمیاں پیدا کرنی شروع کردیں ؛چنانچہ اٹھارہویں صدی کے وسط میں جب سلطنتِ مغلیہ کا سورج ٹمٹما رہا تھا اس وقت اِن غیر ملکی گورے مسافروں کو خوب پنپنے کا موقع ملا ، اور انہوں نے ہندوستانیوں کی آپسی خانہ جنگی و نا اتفاقی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کرسی مضبوط کرلی، اور یہاں کے باشندوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا ، یہاں کی تہذیب و تاریخ کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں کرنے لگے ۔ اس وقت علماء اسلاف نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے اپنی انتھک جد وجہد شروع کردی ۔ سراج الدولہ، ٹیپو سلطان شہید سے لیکر شاہ ولی اللہ ، شاہ عبد العزیز ، سید احمد شہید، مولانا اسمٰعیل شہید، حافظ ضامن شہید، علامہ فضلِ حق خیرآبادی ، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبید اللہ سندھی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولنا قاسم نانوتوی ، مولانا حسرت موہانی ، مولانا حسین احمد مدنی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا ابو الکلام آزاد (رحمہم اللہ) جیسے بڑے بڑے علماء اور پیشوا میدانِ جہاد میں کود پڑے ، اور اپنی ظاہری و باطنی قوتوں کے ساتھ اپنے تن من دھن کی قربانی دے کر دردناک اذیتیں برداشت کرکے جہد مسلسل و سعی پیہم کے بعد 15 اگست 1947 کو اس ملک کو آزادی دلوائی ۔
مسلم علماء و قائدین نے شروع ہی سے انگریزوں کے خلاف ماحول کو گرم رکھا ، جب جس کام کی ضرورت پڑی پوری بصیرت کے ساتھ اس کام کو کرنے میں پیش رفتی کی ۔ تقریروں ،تحریروں، رسالوں کے ذریعے بھی تحریک آزادی کو تقویت بخشی ۔ہندوستانیوں کے لہو کو مزید گرم کرنے کے لئے طوطئی ہند مولانا ابو الکلام آزاد نے ایسے وقت میں " البلاغ اور الہلال" رسالوں کے ذریعے انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑنے میں زخم پر نمک پاشی کا کام کیا ، جس سے انگریزوں کو زبردست دھچکا لگا ، اسی کے نتیجے میں مولانا کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ۔ علماء اسلاف نے مختلف وقت میں مختلف تحریکوں کے ذریعے اس جنگ کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، جس میں تحریکِ ریشمی رومال بھی شامل ہے ۔ یہ ایک ایسی زبردست تحریک تھی کہ اگر یہ کامیاب ہوجاتی تو انگریزوں کو زبردست منہ کی کھانی پڑتی ، مگر اپنوں کی غداری ، ناسمجھی؛ جہالت و لالچ نے اس تحریک کو ناکام کردیا ۔ 1831عیسوی کا معرکہ جس کو معرکہ بالاکوٹ کہا جاتا ہے، اسی طرح 1857 عیسوی کی لڑائی جو انگریزوں کے خلاف لڑی گئی ؛تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ان دو اقدامات کے بعد ریشمی رومال یہ تیسری سرفروشانہ و فاتحانہ تحریک تھی ، جس کی کامیابی طے تھی مگر مقدر میں مزید قربانیاں لکھی گئیں تھیں اس لئے یہ تحریک بھی ناکام ہوئی ۔ ان تمام تحریکوں میں جہاں مسلم عوام کا حصہ رہا ہے وہیں بنیادی مرکزی ؛و قائدانہ کردار علماء نے ہی ادا کیا ۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی اور نعرہ بھی سب سے پہلے علماء نے ہی دیا ۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نے ایک فتوی مرتب کرایا جس میں علماء دہلی سے دستخط لئے جس میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی تھا ، یہی فتوی مولانا کی گرفتاری کا سبب بنا ۔ مولانا نے عدالت کے سامنے بے باک انداز میں کہا کہ یہ فتوی میرا ہی مرتب کیا ہوا ہے ۔ انگریزوں کو سب سے زیادہ ڈر اور خطرہ علماء سے ہی تھا، کیونکہ علماء ہی اس وقت آزادی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں پیش کررہے تھے ، نمونے کے طور پر انگریز مورخ کے قلم سے لکھی ہوئی چند دردناک تحریریں آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں " ہومز " لکھتا ہے " کہ مولوی احمد اللہ شاہ شمالی ہند میں انگریزوں کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ ٹامسن لکھتا ہے کہ : "دلی کے چاندنی چوک سے لیکر پشاور تک درختوں پر علماء کی گردنیں اور جسم لٹکے ہوئے ملتے تھے "۔ آگے لکھتا ہے کہ " روزانہ 80 علماء پھانسی پر لٹکائے جاتے تھے ۔ ٹامسن کا یہ دردناک بیان بھی سنئے اور اندازہ لگائیے کہ علماء نے آزادی کے لئے کس قدر قربانیاں پیش کیں ہیں ؟ لکھتا ہے کہ: میں دلی کے ایک خیمے میں بیٹھا تھا مجھے گوشت کے جلنے کی بو آئی، میں نے خیمے کے پیچھے جاکر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگاروں  پر تیس چالیس علماء کو ننگاکرکے ڈالا جارہا ہے پھر دوسرے ۴۰ لائے گئے اُنھیں ننگاکیاگیا۔ ایک انگریز نے کہا: اگر تم انقلاب ۱۸۵۷/ میں شرکت سے انکار کردو تو تمھیں چھوڑ دیا جائے گا۔“ ٹامسن قسم کھاکر کہتا ہے: ”سارے علماء جل کر مرتے گئے؛ مگر کسی ایک نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہیں جھکائی“۔ مولانا جعفر تھانیسری اپنی کتاب " کالا پانی " میں تحریر فرماتے ہیں :کہ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ، پیروں میں بیڑیاں ، جسم پر جیل کا لباس اور کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں ، ہم تین علماء تھے جن کے لئے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے ، اور ہمیں ان میں ڈال دیا ، اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دار سلاخیں بھی لگوائیں ، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارا لے سکتے تھے نہ بیٹھ سکتے تھے ، ہماری آنکھوں سے آنسوں اور پیروں سے خون بہ رہے تھے ۔ غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر 1857 عیسوی میں پکڑے گئے لوگوں کو یا تو سر عام پھانسی دیدی گئی یا بہت سے لوگوں کو جزیرے انڈمان میں موت سے بد تر زندگی گزارنے کے لئے بھیجا گیا ۔ ( کالا پانی )
 تاریخ کے اوراق علماء کی قربانیوں سے پُر ہیں، مگر بعض ہی مجاہدین علماء ایسے ہیں جن کو تاریخ میں کما حقہ جگہ اور شہرت ملی ، کثیر تعداد مجاہدین علماء کی ایسی ہے کہ تاریخ نے ان کو فراموش کردیا، اسی لئے ضرورت ہے کہ گمنام مجاہدین علماء کی قربانیوں کو اجاگر کرکے منظر عام پر لانے کی کوشش کی جائے ، تاکہ ہندوستانی شہریوں کو معلوم ہوسکے کہ جنگ آزادی میں علماء کا کتنا حصہ رہا اور کتنی قربانیاں دیں ؟ خلاصہ یہ ہے کہ علماء کرام ہی کی بدولت ہمیں اس ملک میں آزادی نصیب ہوئی، اگر وہ جد و جہد اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش نہ کرتے تو آج ہم انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوتے ؛ان علماء کے اتنے احسانات ہیں کہ ہم باشندگانِ ہند کبھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتے ۔
خادم جمعیۃ علماء بانکا بہار۔

What's Your Reaction?

Like Like 1
Dislike Dislike 0
Love Love 1
Funny Funny 0
Angry Angry 0
Sad Sad 0
Wow Wow 0